تفسير ابن كثير



سورۃ الكهف

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا[27] وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا[28]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور اس کی تلاوت کر جو تیری طرف تیرے رب کی کتاب میں سے وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا تو کبھی کوئی پناہ کی جگہ پائے گا۔ [27] اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھ جو اپنے رب کو پہلے اور پچھلے پہر پکارتے ہیں، اس کا چہرہ چاہتے ہیں اور تیری آنکھیں ان سے آگے نہ بڑھیں کہ تو دنیا کی زندگی کی زینت چاہتا ہو اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام ہمیشہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔ [28]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] تیری جانب جو تیرے رب کی کتاب وحی کی گئی ہے اسے پڑھتا ره، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے واﻻ نہیں تو اس کے سوا ہرگز ہرگز کوئی پناه کی جگہ نہ پائے گا [27] اور اپنے آپ کو انہیں کے ساتھ رکھا کر جو اپنے پروردگار کو صبح شام پکارتے ہیں اور اسی کے چہرے کے ارادے رکھتے ہیں (رضامندی چاہتے ہیں)، خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھاٹھ کے ارادے میں لگ جا۔ دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے [28]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور اپنے پروردگار کی کتاب جو تمہارے پاس بھیجی جاتی ہے پڑھتے رہا کرو۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ اور اس کے سوا تم کہیں پناہ کی جگہ بھی نہیں پاؤ گے [27] اور جو لوگ صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں۔ ان کے ساتھ صبر کرتے رہو۔ اور تمہاری نگاہیں ان میں (گزر کر اور طرف) نہ دوڑیں کہ تم آرائشِ زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ۔ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا [28]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 27، 28،

تلاوت و تبلیغ ٭٭

اللہ کریم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کلام کی تلاوت اور اس کی تبلیغ کی ہدایت کرتا ہے، اس کے کلمات کو نہ کوئی بدل سکے نہ ٹال سکے، نہ ادھر ادھر کر سکے، سمجھ لے کہ اس کے سوائے جائے پناہ نہیں، اگر تلاوت و تبلیغ چھوڑ دی تو پھر بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ جیسے اور جگہ ہے کہ «يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّـهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ» [ 5-المائدة: 67 ] ‏‏‏‏ اے رسول جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اترا ہے اس کی تبلیغ کرتا رہ اگر نہ کی تو تو نے حق رسالت ادا نہیں کیا لوگوں کے شر سے اللہ تجھے بچائے رکھے گا۔ اور آیت میں ہے «اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَادُّكَ اِلٰى مَعَادٍ قُلْ رَّبِّيْٓ اَعْلَمُ مَنْ جَاءَ بالْهُدٰى وَمَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ» [ 28- القص: 85 ] ‏‏‏‏ یعنی اللہ تعالیٰ تجھ سے تیرے منصب کی بابت قیامت کے دن ضرور سوال کرے گا۔ اللہ کا ذکر، اس کی تسبیح، حمد، بڑائ اور بزرگی بیان کرنے والوں کے پاس بیٹھا رہا کر جو صبح شام یاد الٰہی میں لگے رہتے ہیں، خواہ وہ فقیر ہوں خواہ امیر، ‎خواہ رزیل ہوں خواہ شریف، خواہ قوی ہوں خواہ ضعیف۔
4883

قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ چھوٹے لوگوں کی مجلس میں نہ بیٹھا کریں جیسے بلال، عمار، صہیب، خباب، ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ اور ہماری مجلسوں میں بیٹھا کریں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی درخواست رد کرنے کا حکم فرمایا جیسے اور آیت میں ہے «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ» [ 6- الانعام: 52 ] ‏‏‏‏ یعنی صبح شام یاد الٰہی کرنے والوں کو اپنی مجلس سے نہ ہٹا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ ہم چھ شخص غریب غرباء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، سعد بن ابی وقاص، ابن مسعود، قبیلہ ہذیل کا ایک شخص، بلال اور دو آدمی اور رضی اللہ عنہم اتنے میں معزز مشرکین آئے اور کہنے لگے انہیں اپنی مجلس میں اس جرات کے ساتھ نہ بیٹھنے دو۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جی میں کیا آیا؟ جو اس وقت آیت «وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ» اتری۔ [صحیح مسلم:2413] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے کہ ایک واعظ قصہ گوئی کر رہا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، وہ خاموش ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بیان کئے چلے جاؤ۔ میں تو صبح کی نماز سے لے کر آفتاب کے نکلنے تک اسی مجلس میں بیٹھا رہوں، تو اپنے لئے چار غلام آزاد کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں۔ [مسند احمد:261/5:ضعیف] ‏‏‏‏ اور حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں کہ میں ایسی مجلس میں بیٹھ جاؤں، یہ مجھے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ [مسند احمد:474/3:ضعیف] ‏‏‏‏۔ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ ذکر اللہ کرنے والوں کے ساتھ صبح کی نماز سے سورج نکلنے تک بیٹھ جانا مجھے تو تمام دنیا سے زیادہ پیارا ہے، اور نماز عصر کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک اللہ کا ذکر کرنا مجھے آٹھ غلاموں کے آزاد کرنے سے زیادہ پیارا ہے، گو وہ غلام اولاد اسماعیل سے گراں قدر اور قیمتی کیوں نہ ہوں، گو ان میں سے ایک ایک کی دیت بارہ بارہ ہزار کی ہو تو مجموعی قیمت چھیانوے ہزار کی ہوئی۔ بعض لوگ چار غلام بتاتے ہیں لیکن انس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، واللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ غلام فرمائے ہیں۔ [مسند طیالسی،2104:ضعیف] ‏‏‏‏
4884

بزار میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے ایک صاحب سورۃ الکہف کی قرأت کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر خاموش ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی ان لوگوں کی مجلس ہے جہاں اپنے نفس کو روک کر رکھنے کا مجھے حکم الٰہی ہوا ہے۔ [مجمع الزوائد،167/7:ضعیف] ‏‏‏‏ اور روایت میں ہے کہ یا تو سورۃ الحج کی وہ تلاوت کر رہے تھے یا سورۃ الکہف کی۔ [مسند بزار،2636:ضعیف] ‏‏‏‏

مسند احمد میں ہے فرماتے ہیں ذکر اللہ کے لیے جو مجلس جمع ہو، نیت بھی ان کی بخیر ہو تو آسمان سے منادی ندا کرتا ہے کہ اٹھو اللہ نے تمہیں بخش دیا، تمہاری برائیاں بھلائیوں سے بدل گئیں۔ [مسند احمد:142/3:صحیح لغیرہ] ‏‏‏‏ طبرانی میں ہے کہ جب یہ آیت اتری تو آپ اپنے کسی گھر میں تھے، اسی وقت ایسے لوگوں کی تلاش میں نکلے۔ کچھ لوگوں کو ذکر اللہ میں پایا، جن کے بال بکھرے ہوئے تھے، کھالیں خشک تھیں، بمشکل ایک ایک کپڑا انہیں حاصل تھا، فوراً ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور کہنے لگے، اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں ایسے لوگ رکھے ہیں، جن کے ساتھ بیٹھنے کا مجھے حکم ہوا ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23017:ضعیف] ‏‏‏‏ پھر فرماتا ہے ان سے تیری آنکھیں تجاوز نہ کریں، ان یاد اللہ کرنے والوں کو چھوڑ کر مالداروں کی تلاش میں نہ لگ جانا جو دین سے برگشتہ ہیں، جو عبادت سے دور ہیں، جن کی برائیاں بڑھ گئی ہیں، جن کے اعمال حماقت کے ہیں، تو ان کی پیروی نہ کرنا، ان کے طریقے کو پسند نہ کرنا، ان پر رشک بھری نگاہیں نہ ڈالنا، ان کی نعمتیں للچائی ہوئی نظروں سے نہ دیکھنا۔ جیسے فرمان ہے «وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَىٰ مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ» [ 20- طه: 131 ] ‏‏‏‏، ہم نے انہیں جو دنیوی عیش و عشرت دے رکھی ہے یہ صرف ان کی آزمائش کے لیے ہے۔ تو للچائی ہوئی نگاہوں سے انہیں نہ دیکھنا، دراصل تیرے رب کے پاس کی روزی بہتر اور بہت باقی ہے۔
4885



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.